Wednesday 4 March 2015

!!مجھے بچائو

!!مجھے بچائو


میں اس کائنات کی سب سے خوبصورت اکائی ہوں ! میر اوجوداس دنیا کے لیے جزو لا ینفک ہے۔ دنیا کی ہر چیز میری محتاج ہے ۔میں ایک ایسا ادارہ ہوں جس کے چلانے والے مرد و وعورت دونوں ہیں ۔ مجھے اردو میں گھر، عربی میں بیت اور انگلش میں ہوم کہتے ہیں اور یہ گھر پیارا گھر ، ہوم سوئیٹ ہوم آج کل شدید خطرات کی زد میں ہے!!

نہیں آپ غلط سمجھے ! یہ خطرہ ہر گز زلزلے کا نہیں ہے ۔ پھر کیا ہے خطرہ؟ یہ خطرہ تنہائی کا بھی ہے ، عدم دلچسپی کا
بھی ہے ، لاپرواہی کا بھی ہے اور معدوم ہونے کا بھی ہے! بالکل اسی طرح جیسے جانوروں اور پودوں کی بعض نایاب اقسام کو خطرہ ہوتا ہے
 جیسا کہ میں نے ذکر کیا میرے ذمہ دار عورت و مرد دونوں ہی ہیں اور قدرت نے ان دونوں کا دائرہ کار اس طرح تقسیم کیا ہوا ہے کہ مرد کے ذمے باہر کے کام ہوتے ہیں جبکہ گھر کے اندر کے تمام کاموں کی ذمہ دار عورت ہے ۔ یعنی پیسے کما کر لانا اور ضروریات مہیا کرنا مرد کا کام ہے اور پیسے اور چیزوں کو استعمال مٰن لاتے ہوئے گھر کو درست حالت میں رکھنا عورت کی ذمہ داری ہے۔ 
 دونوں اپنا اپنا کام صدیوں سے خوش اسلوبی سے کرتے چلے آئے ہیں مگر اب جیساکہ نظام تبدیل ہونے کی بات ہو رہی ہے تو عورت ملک کی ترقی کے لیے گھر سے نکل کھڑی ہوئی ہےتو مجھ پر ویرانی سی چھا گئی ہے ۔ درو دیوار اداس ہیں ، پھول پتے مر جھا گئے ہیں ۔ گھر کے جانور اور پرندے تک در بدر ہورہے ہیں کیونکہ ان سب کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ رہا اور میرا سر مایہ ، میری رونق، میری کائنات ، میری صنعت بچوں کا تو پوچھنا ہی کیا؟ باپ کی توجہ سے تو وہ پہلے ہی محروم تھے اب ماں کی صورت کو بھی ترستے ہٰں ! اماں دنیا کے مسائل حل کرنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہے مگر ان کے مسائل کون حل کرے ؟ان کے کپڑے صاف ہیں یا نہیں ؟ ان کا ہوم ورک کروانے والا کوئی نہیں ! ایمر جنسی ہوجائے تو کیا کریں ؟ یہاں تو ایسا کوئی نمبر نہٰں جسے ڈائل کرکے فوری مدد حاصل کی جا سکے ۔ بس چیخ و پکار کرکے ہی رہ سکتے ہیں
 مگر نہیں ہر مسئلے کا حل تو ضرور نکالا جا تا ہے ناں تو بس ان مسائل کے لیے بھی آیا ، ٹیوٹڑ ہیں ناں ! اور پھر باپ کی بھی تو ذمہ داری بنتی ہے نا! ! گھر سے باہر بہت کچھ کر لیا اب ذرا گھر کے بھی کچھ کام کر لیں ! آ خر تبدیلی آ رہی ہے ؟ لیکن جس طرح ایک چیز کی تر تیب پلٹنے سے ساری چیزیں ڈسٹرب ہوجاتی ہیں ،اسی طرح سے ماں اور باپ کی ذمہ داریاں تبدیل ہونے سے سب چیزیں الٹ پلٹ ہو چکی ہیں 
 اب باپ کو کیا پتہ کہ بچے کو کھا نا کھلانے کے لیے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں ؟ کتنی کہانیاں سنانی پڑ تی ہٰں ! کتنی خوشامدوں سے ہوم ورک ہوتا ہے؟ کتنے پیار سے کُڑے بدلوائے جاتے ہیں ! وہ تو بےچارہ کھان الگائے پریشان اور شاکی کھرا ہے ! اس کی سمجھ سے باہر ہے کہ ماں اتنے کم وقفے میں تمام کام کس طرح نبٹا لیتی ہے ؟ بچے کو تیار کراوا کے ناشتہ بنا لیتی ہے ، کپڑے دھل کر استری ہو جا تے ہیں اور گھر یعنی میں چمک اٹھتا ہوں اور میرے چمکنے سے ماحول نکھر جا تا ہے۔ 
 اب مرد بے چارے کو کون سمجھائے کہ یہ عورت کا کوئی کمال نہیں یہ تو قدرت ہے جس نے عورت کو حسن انتظام بخشا ہے جس کی مسکراہٹ سے کلیاں کھل جا تی ہیں اور بوٹے مسکرا اٹھتے ہیں ! پرندے چہچہانے لگتے ہیں ، در و دیوار کی ویرانی بہار میں بدل جاتی ہے ۔ اس کے ہاتھوں کے لمس سے کھانے میں ذائقہ دوڑنے لگتا ہے ! اس کی ہتھیلیاں آٹے میں کون سا جذبہ گوندھ دیتی ہیں کہ کھانے کی اشتہا بیدار ہو جاتی ہے۔ ۔ برتن گنگنا اٹھتے ہیں ، اس کی آ نکھوں کی چمک میری ساری آلودگی دور کردیتی ہے۔ اور میں نکھر جا تا ہوں !ماحول میں نغمگی آ جاتی ہے ۔ اس کے وجود سے پھیلتی محبت کی خوشبو روٹھے ہوئے اور بکھرے ہوئوں کو یکجا کر دیتی ہے
 میری چمک ماند پڑی ہے تو میں بے چاری عورت کو کیوں نہ یاد کروں؟مجھے نہیں پتہ مجھ سے دور رہ کر اس پر کیا گزرتی ہے؟اس کو کتنے دھکے کھانے پڑ رہے ہیں ؟ کتنے تھپیڑے اس کو کمہلا رہے ہیں ؟ اس کو کیا پتہ لوگوں سے کس کس طرح کام کروانے پڑتے ہیں ؟ کتنے پاپڑ بیلنے پڑ تے ہیں ؟ مجھے اس سے کوئی غرض بھی نہیں ! مجھے تو اپنی فکر ہے مجھے اپنی بقا عزیز ہےاور میری بقاجس کے دم سےہے مجھے اس کی فکر تو کرنی چاہئیے نا!اس کی آ نکھوں کے مدھم پڑ تے گلاب مجھے خون کے آ نسو رلاتے ہیں ، اس کا تھکا ہوا پریشان وجود میری ویرانی میں اضافہ کر رہا ہے ! پرندےسہمے ہوئے ہوں تو گل بوتے بھی نہیں مسکراتے ! ۔ گھر کے برتن خاموش ہوں تو ماحول کا سناٹا کیسے دور ہو؟ 
  اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کتنے شدید خطرات کی زد میں ہوں اور یہ خطرہ اپنی آ خری حدوں کو چھو رہا ہے
٭٭٭ اب تو آپ مجھے ان تنظیموں سے متعارف کروائیں جو مجھے بچا نے کی فکر کریں بالکل اس طرح جیسے خطرے کی   زد میں آئی ہوئی جانوروں اور پودوں کی بعض اقسام کی فکر ہوتی ہے ۔
٭٭٭ میرے اوپر سے اوزون کی تہہ کمزور پڑ رہی ہے اور میں ان شعاعوں کی زد میں ہوں جو میرے وجود کو پگھلانے کے لیے کا فی ہیں !
!٭٭٭ مجھے وہ نمائش گاہ دکھایے جہاں میں اپنی تباہی کے خلاف ڈسپلے کر سکوں 
!٭٭٭ مجھے اس واک کا راستہ بتایے جہاں میں چھڑی کا سہارا لے کر اپنے لڑ کھڑاتے وجود کے ساتھ شریک ہوسکوں 
!٭٭٭ میرے لیے سیمینار /مذاکرے منعقد کروائیں ۔میرے تحفظ کے لیے اسٹکرز چھا پیں 
!!!٭٭٭ کچھ تو کریں 
!٭٭٭ میرے ختم ہونے سے میرا سر مایہ تباہ ہو گا 
٭٭٭ میری کائنات اجڑے گی تو یہ معاشرہ بھی ڈوب جائے گا ۔ اور اگر یہ معاشرہ اجڑ گیا تو میری ویرانی کا نوحہ کہنے والا        بھی کوئی نہیں ہو گا 

٭٭٭کیا آپ کو معلوم ہے میں اس دنیا کی عمارت کی پہلی اینٹ ہوں اور شاید آ خری بھی ۔میری تباہی اس دنیا کی تباہی اور
     بر بادی ہے     



                 ٭٭٭ فر حت طاہر ٭٭٭                                                                        

No comments:

Post a Comment