Tuesday 24 March 2015

My first blog میرا پہلا بلاگ: خالی پنجرہ

My first blog میرا پہلا بلاگ: خالی پنجرہ:                                         خالی پنجرہ                        گھر میں ایک ایمرجنسی سی نظر آنے لگی۔ تما م ممکنہ رابطے ...

خالی پنجرہ

                                       خالی پنجرہ
                      
گھر میں ایک ایمرجنسی سی نظر آنے لگی۔ تما م ممکنہ رابطے کیے جارہے تھے مگر کہیں سے مدد نہ مل پارہی تھی کہ یہ جھگڑا ختم ہو ۔۔مگر نہیں اسے جھگڑے کے بجاءے حملہ کہنا چاہءیے۔ جی ہاں ۔بڑے پرندے نومولود بغیر پر والے پرندوں کو بری طرح زخمی کررہے تھے۔ گھر میں موجود سب بچے اور لڑکیاں اس منظر کودیکھ کر بہت پریشان تھےاور ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی طرح ان معصوم بچوں کو ان ٹھونگوں سے بچایا جاءے ۔۔۔۔ ٹھہریں پہلے پوری بات بتاتے ہیں
سردیوں کی ایک خوبصورت دوپہر تھی جب ہمارے اس شوق کی تکمیل ہوءی کہ ہم پرندے پالیں ۔ خوبصورت آسٹریلین طوطے کے دو جوڑے مع پنجرے کے ساتھہ ہمارے گھر آیا ۔بہت خوشی کے ساتھ ان کا استقبال ہوا۔ایک جوڑا سبز رنگ کا تھا جبکہ دوسرا فیروزی اورلیمن کلر کا۔  ان کی غذا، پانی، آرام کا خیال رکھا جانے لگا۔ بڑے نازک اندام پرندے تھے ہر ایک کا دل موہ رہے تھے۔ان کی آواز سے لے کر اداءیں گھر بھر کو بھا رہی تھیں ۔کسی کو وہ شرمیلے لگتے اور کچھ کی نظر میں نخریلے تھے۔  موسم کی شدت کے باعث ان کا خصوصی خیال رکھا جارہاتھا۔ شہر سے باہر جانا ہوا تو ان کی دیکھ بھال کسی کے سپرد کر کے گءے۔
موسم بدلا تو ان کے انڈے دینے کاوقت آ گیا۔اب تو بہت زیادہ توجہ دی جانے لگی۔اور پھر انڈے بھی آگءے۔ اب ماداءیں زیادہ تر مٹکی کےاندر قیام کرتیں ہاں کبھی کبھار خانگی امور پر اپنے نر کو گھرکنے یا تبدیلی کی غرض سے باہر بھی آ جاتیں۔ سب کی توجہ فیروزی اور لیمن جوڑے پر تھیں۔ وہ نسبتاً نرم خو بھی تھے۔کچھ عرصے بعد فیروزی والے کے یہاں انڈوں سے بچے نکل آ ءے۔یہ تعداد میں پانچ تھے۔اب ان کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہو گیا ۔غذا ااور پانی کااستعمال بھی بڑھ گیا۔سب ان بچوں کے پروں کے رنگ کے بارے میں پر تجسس تھے ۔ سبز طوطے کے انڈے ہنوز جوں کے توں پڑے تھے ۔تشویش بھی تھی۔ دونوں والدین بھی فکر مندی میں ڈوبے نظر آ تے۔
ایک دن صبح پنجرے میں سارے انڈے مٹکی سےباہر ٹوٹے پڑے تھے ۔گویااب ان میں زنگی کی امید نہیں باقی رہی۔ تھوڑا افسوس ہوا۔ اس جوڑے کے مزاج میں بھی رنج اور  افسوس نظرآیا۔ اگلے ہی دن دو بچے مرگءے۔ ہم سب بہت افسر دہ ہوٴے۔پنجرے کی  صفاءی وغیرہ کی تو تھوڑی دیر میں ایک بچہ زخمی حالت میں مٹکی سے باہر گر گیا۔فوراً اسے مدد فراہم کر کے واپس رکھا گیا،۔ تھوڑی دیر میں پنجرے سے بہت آ وازیں آ نے لگیں ۔جاکر دیکھا تو سبزمادہ خوب جھگڑا کر رہی تھی۔اس معاملے کو حل کرہی رہے تھےکہ فیروزی والی ماں پنجرے سے باہر اڑ گءی۔ ابھی ہم اس صد مے سے باہر نہ آ ءے تھے کہ دیکھا کہ بچے خونم خون ہورہے ہیں اور سبز مادہ کی چونچ خون آلود ہے۔آپ صورت حال کا اندازہ کر سکتے ہیں؟
یہ تھا واقعہ  جس کاذکر بلاگ کے آغاز میں ہوا تھا۔۔ کچھ دیر کی پریشانی کے بعد پڑوسی کا بیٹا ہاتھوں میں دستانے پہن کر پنجرے کی طرف لپکا ۔سب سے پہلے تو خونخوار جوڑے کوعلیحدہ کیا گیا ۔ پھر باقی بچوں کی طرف توجہ کی گءی۔ ان کے زخم پر مرہم رکھاگیا۔اس دوران ہم نے پرندوں کی ماہر ڈاکٹر سمیرا سے رابطہ کرلیاتھا۔تھوڑی دیر میں وہ آ پہنچیں۔ انہوں نے محبت اور پیا رسے ان کی ٹکور کی ۔معصوموں کی چونچیں اس حملے میں توڑ دی گءیں ۔ اب کیسے کھلایا جاءے گا ؟ ماں تو پہلے ہی پنجرے میں نہیں ہے؟ ہم سب پریشان تھے۔ خیر وہ ان زخمی بچوں اور ان کے باپ کو اپنے ہمراہ لے گءیں اور ہمارا پنجرہ خالی ہو گیا۔ ابھی تک وہ بچے زندہ ہیں دعا کریں کہ خیریت رہے اگر چہ امید کم ہے ۔
عزیز قارءین ، یہاں پر اس بلاگ کا خاتمہ ہو جا نا تھا۔ مگر کچھ باتیں اس واقعے سے سامنے آءیں ۔ یعنی کہ ان جوڑوں کو الگ الگ رکھنا تھا۔ غلطی ضرورہوءی لیکن پچھلے چند ماہ سے وہ اتنے خوشگوار ماحول میں تھے کہ ضرورت ہی نہ محسوس ہوءی۔ لیکن اس بات سے آگہی کے نءے در کھلے ۔ جی ہاں ، اس حیوانی جبلت کا اندازہ ہوا جو انسان میں بھی من و عن موجود ہے یعنی حسد ۔قرآن میں ہابیل و قابیل کے واقعے میں یہ جبلت بھاءی کا قتل کرتی ہے تو حضرت یوسف کے قصے میں کنوءیں میں پھینکتی نظر آ تی ہے۔ اور آج کے دور میں حسد کی کارستانی بابوں اور عاملوں کی بڑھتی ہوءی تعداد اور قتل و خود کشی کے واقعات سے عیاں ہے۔ کیا اس کے حل کے لیے کوءی بات ہے آپ کے پاس؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭٭فر حت طاہر ٭٭٭                                                       

    
          
    

Wednesday 4 March 2015

!!مجھے بچائو

!!مجھے بچائو


میں اس کائنات کی سب سے خوبصورت اکائی ہوں ! میر اوجوداس دنیا کے لیے جزو لا ینفک ہے۔ دنیا کی ہر چیز میری محتاج ہے ۔میں ایک ایسا ادارہ ہوں جس کے چلانے والے مرد و وعورت دونوں ہیں ۔ مجھے اردو میں گھر، عربی میں بیت اور انگلش میں ہوم کہتے ہیں اور یہ گھر پیارا گھر ، ہوم سوئیٹ ہوم آج کل شدید خطرات کی زد میں ہے!!

نہیں آپ غلط سمجھے ! یہ خطرہ ہر گز زلزلے کا نہیں ہے ۔ پھر کیا ہے خطرہ؟ یہ خطرہ تنہائی کا بھی ہے ، عدم دلچسپی کا
بھی ہے ، لاپرواہی کا بھی ہے اور معدوم ہونے کا بھی ہے! بالکل اسی طرح جیسے جانوروں اور پودوں کی بعض نایاب اقسام کو خطرہ ہوتا ہے
 جیسا کہ میں نے ذکر کیا میرے ذمہ دار عورت و مرد دونوں ہی ہیں اور قدرت نے ان دونوں کا دائرہ کار اس طرح تقسیم کیا ہوا ہے کہ مرد کے ذمے باہر کے کام ہوتے ہیں جبکہ گھر کے اندر کے تمام کاموں کی ذمہ دار عورت ہے ۔ یعنی پیسے کما کر لانا اور ضروریات مہیا کرنا مرد کا کام ہے اور پیسے اور چیزوں کو استعمال مٰن لاتے ہوئے گھر کو درست حالت میں رکھنا عورت کی ذمہ داری ہے۔ 
 دونوں اپنا اپنا کام صدیوں سے خوش اسلوبی سے کرتے چلے آئے ہیں مگر اب جیساکہ نظام تبدیل ہونے کی بات ہو رہی ہے تو عورت ملک کی ترقی کے لیے گھر سے نکل کھڑی ہوئی ہےتو مجھ پر ویرانی سی چھا گئی ہے ۔ درو دیوار اداس ہیں ، پھول پتے مر جھا گئے ہیں ۔ گھر کے جانور اور پرندے تک در بدر ہورہے ہیں کیونکہ ان سب کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ رہا اور میرا سر مایہ ، میری رونق، میری کائنات ، میری صنعت بچوں کا تو پوچھنا ہی کیا؟ باپ کی توجہ سے تو وہ پہلے ہی محروم تھے اب ماں کی صورت کو بھی ترستے ہٰں ! اماں دنیا کے مسائل حل کرنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہے مگر ان کے مسائل کون حل کرے ؟ان کے کپڑے صاف ہیں یا نہیں ؟ ان کا ہوم ورک کروانے والا کوئی نہیں ! ایمر جنسی ہوجائے تو کیا کریں ؟ یہاں تو ایسا کوئی نمبر نہٰں جسے ڈائل کرکے فوری مدد حاصل کی جا سکے ۔ بس چیخ و پکار کرکے ہی رہ سکتے ہیں
 مگر نہیں ہر مسئلے کا حل تو ضرور نکالا جا تا ہے ناں تو بس ان مسائل کے لیے بھی آیا ، ٹیوٹڑ ہیں ناں ! اور پھر باپ کی بھی تو ذمہ داری بنتی ہے نا! ! گھر سے باہر بہت کچھ کر لیا اب ذرا گھر کے بھی کچھ کام کر لیں ! آ خر تبدیلی آ رہی ہے ؟ لیکن جس طرح ایک چیز کی تر تیب پلٹنے سے ساری چیزیں ڈسٹرب ہوجاتی ہیں ،اسی طرح سے ماں اور باپ کی ذمہ داریاں تبدیل ہونے سے سب چیزیں الٹ پلٹ ہو چکی ہیں 
 اب باپ کو کیا پتہ کہ بچے کو کھا نا کھلانے کے لیے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں ؟ کتنی کہانیاں سنانی پڑ تی ہٰں ! کتنی خوشامدوں سے ہوم ورک ہوتا ہے؟ کتنے پیار سے کُڑے بدلوائے جاتے ہیں ! وہ تو بےچارہ کھان الگائے پریشان اور شاکی کھرا ہے ! اس کی سمجھ سے باہر ہے کہ ماں اتنے کم وقفے میں تمام کام کس طرح نبٹا لیتی ہے ؟ بچے کو تیار کراوا کے ناشتہ بنا لیتی ہے ، کپڑے دھل کر استری ہو جا تے ہیں اور گھر یعنی میں چمک اٹھتا ہوں اور میرے چمکنے سے ماحول نکھر جا تا ہے۔ 
 اب مرد بے چارے کو کون سمجھائے کہ یہ عورت کا کوئی کمال نہیں یہ تو قدرت ہے جس نے عورت کو حسن انتظام بخشا ہے جس کی مسکراہٹ سے کلیاں کھل جا تی ہیں اور بوٹے مسکرا اٹھتے ہیں ! پرندے چہچہانے لگتے ہیں ، در و دیوار کی ویرانی بہار میں بدل جاتی ہے ۔ اس کے ہاتھوں کے لمس سے کھانے میں ذائقہ دوڑنے لگتا ہے ! اس کی ہتھیلیاں آٹے میں کون سا جذبہ گوندھ دیتی ہیں کہ کھانے کی اشتہا بیدار ہو جاتی ہے۔ ۔ برتن گنگنا اٹھتے ہیں ، اس کی آ نکھوں کی چمک میری ساری آلودگی دور کردیتی ہے۔ اور میں نکھر جا تا ہوں !ماحول میں نغمگی آ جاتی ہے ۔ اس کے وجود سے پھیلتی محبت کی خوشبو روٹھے ہوئے اور بکھرے ہوئوں کو یکجا کر دیتی ہے
 میری چمک ماند پڑی ہے تو میں بے چاری عورت کو کیوں نہ یاد کروں؟مجھے نہیں پتہ مجھ سے دور رہ کر اس پر کیا گزرتی ہے؟اس کو کتنے دھکے کھانے پڑ رہے ہیں ؟ کتنے تھپیڑے اس کو کمہلا رہے ہیں ؟ اس کو کیا پتہ لوگوں سے کس کس طرح کام کروانے پڑتے ہیں ؟ کتنے پاپڑ بیلنے پڑ تے ہیں ؟ مجھے اس سے کوئی غرض بھی نہیں ! مجھے تو اپنی فکر ہے مجھے اپنی بقا عزیز ہےاور میری بقاجس کے دم سےہے مجھے اس کی فکر تو کرنی چاہئیے نا!اس کی آ نکھوں کے مدھم پڑ تے گلاب مجھے خون کے آ نسو رلاتے ہیں ، اس کا تھکا ہوا پریشان وجود میری ویرانی میں اضافہ کر رہا ہے ! پرندےسہمے ہوئے ہوں تو گل بوتے بھی نہیں مسکراتے ! ۔ گھر کے برتن خاموش ہوں تو ماحول کا سناٹا کیسے دور ہو؟ 
  اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کتنے شدید خطرات کی زد میں ہوں اور یہ خطرہ اپنی آ خری حدوں کو چھو رہا ہے
٭٭٭ اب تو آپ مجھے ان تنظیموں سے متعارف کروائیں جو مجھے بچا نے کی فکر کریں بالکل اس طرح جیسے خطرے کی   زد میں آئی ہوئی جانوروں اور پودوں کی بعض اقسام کی فکر ہوتی ہے ۔
٭٭٭ میرے اوپر سے اوزون کی تہہ کمزور پڑ رہی ہے اور میں ان شعاعوں کی زد میں ہوں جو میرے وجود کو پگھلانے کے لیے کا فی ہیں !
!٭٭٭ مجھے وہ نمائش گاہ دکھایے جہاں میں اپنی تباہی کے خلاف ڈسپلے کر سکوں 
!٭٭٭ مجھے اس واک کا راستہ بتایے جہاں میں چھڑی کا سہارا لے کر اپنے لڑ کھڑاتے وجود کے ساتھ شریک ہوسکوں 
!٭٭٭ میرے لیے سیمینار /مذاکرے منعقد کروائیں ۔میرے تحفظ کے لیے اسٹکرز چھا پیں 
!!!٭٭٭ کچھ تو کریں 
!٭٭٭ میرے ختم ہونے سے میرا سر مایہ تباہ ہو گا 
٭٭٭ میری کائنات اجڑے گی تو یہ معاشرہ بھی ڈوب جائے گا ۔ اور اگر یہ معاشرہ اجڑ گیا تو میری ویرانی کا نوحہ کہنے والا        بھی کوئی نہیں ہو گا 

٭٭٭کیا آپ کو معلوم ہے میں اس دنیا کی عمارت کی پہلی اینٹ ہوں اور شاید آ خری بھی ۔میری تباہی اس دنیا کی تباہی اور
     بر بادی ہے     



                 ٭٭٭ فر حت طاہر ٭٭٭